فصیح الملک داغ (شاعر) کے حضور میں
فصیح الملک داغ (شاعر) کے حضور میں
سخن وروں کی ولایت کا تاجدار ہے تو
خدا گواہ کہ یکتائے روزگار ہے تو
زبان کو ناز ہے تجھ پر کہ تیرے گھر کی ہے
وطن کو فخر ہے تجھ پر کہ سحرکار ہے تو
فلک پہ چاند ہے تیری بلندیوں کا گواہ
بہار حسن کی تابندہ یادگار ہے تو
یہی مقام ہے جسے تو نے زمینیں بخشیں
اسی لٹے ہوئے گلزار کی بہار ہے تو
جناب سائل و بیخود پہ اٹھ رہی ہے نگاہ
نہاں ہے پھر بھی سر بزم آشکار ہے تو
ابھی نگاہ میں میں ہے شکل حضرت سیماب ؔ
ابھی تو شاخ نشیمن پہ نغمہ بار ہے تو
ابھی تو پیش نظر ہے شبیہہ دلبرؔ و نوح
ابھی ہماری محافل میں گرم کار ہے تو
ابھی بہت ہیں وہ ارباب محترم جن کے
لطیف و شستہ تکلم سے آشکار ہے تو
مگر کچھ آج یہ محسوس ہو رہا ہے مجھے
کہ جیسے گوشہ تربت میں بیقرار ہے تو
میں جاتنا ہوں تیری بیقراریوں کا سبب
نئے ادب کے تخیل سے اشکبار ہے تو
نہ وزن شعر نہ مطلب نہ قافیہ نہ ردیف
اسی خیال سے محزوں تہہ مزار ہے تو
اگر یہ سچ ہے تو تجھ کو یقین دلاتے ہیں
ہمارے دیدہ وہ دل کا فقط قرار ہے تو
یہ داغ داغ کی خاطر مٹا کے چھوڑیں گے
نئے ادب کو فسانہ بنا کے چھوڑیں گے