شاید کسی بلا کا تھا سایہ درخت پر
شاید کسی بلا کا تھا سایہ درخت پر
چڑیوں نے رات شور مچایا درخت پر
موسم تمہارے ساتھ کا جانے کدھر گیا
تم آئے اور بُور نہ آیا درخت پر
دیکھا نہ جائے دُھوپ میں جلتا ہوا کوئی
میرا جو بس چلے، کروں سایہ درخت پر
سب چھوڑے جا رہے تھے سفر کی نشانیاں
میں نے بھی ایک نقش بنایا درخت پر
اب کے بہار آئی ہے شاید غلط جگہ
جو زخم دل پہ آنا تھا، آیا درخت پر
ہم دونوں اپنے اپنے گھروں میں مقیم ہیں
پڑتا نہیں درخت کا سایہ درخت پر