پھرا ہوا جو کسی کی نظر کو دیکھتے ہیں
لگا کے تیر ہم اپنے جگر کو دیکھتے ہیں
نظر چرا کے وہ یوں ہر جگر کو دیکھتے ہیں
کسی کو یہ نہیں ثابت کدھر کو دیکھتے ہیں
بنے ہوئے ہیں وہ محفل میں صورتِ تصویر
ہر ایک کو یہ گمان ہے ، اِدھر کو دیکھتے ہیں
فروغِ ماہ کہاں یہ شبِ جدائی میں
چراغ لے کے فرشتے سحر کو دیکھتے ہیں
تمہارے پاس کہیں بھول کر نہ آیا ہو
ہمیں تلاش ہے ،ہم نامہ بر کو دیکھتے ہیں
ہمیں گمان یہ ہوتا ہے، ہم کو روتا ہے
کسی جگہ جو کسی نوحہ گر کو دیکھتے ہیں
خیالِ بعدِ فنا بھی ہے دوست دشمن کا
ہم آنکھ بند کئے ہر بشر کو دیکھتے ہیں
الہٰی آج ہی پورا ہو وعدہء دیدار
نہیں تو اور کسی جلوہ گر کو دیکھتے ہیں
بنی ہوئی ہے لفافے پہ خط کی آنکھ اپنی
قدم قدم روش ِنامہ بر کو دیکھتے ہیں
مقامِ رشک ہوا عرصہء قیامت بھی
تجھی کو دیکھتا ہے ،جس بشر کو دیکھتے ہیں
یہ شک ہے تنِ لاغر سے ناتوانوں کے
وہ کھینچ کھینچ کے اپنی کمر کو دیکھتے ہیں
بتوں کے واسطے دنیا نہیں ہے جنت ہے
بہشت دیکھتے ہیں،جس کے گھر کو دیکھتے ہیں
حیا تو دیکھئے، آئینے سے بھی پردہ ہے
وہ اپنے ہاتھ سے پہلے سحر کو دیکھتے ہیں
خدا کرے سر محشر وہ بت ہو بےپردہ
کہ ہم بھی دیکھتے ہیں، سب کدھر کو دیکھتے ہیں
نکل نہ آئے کہیں داغِ آرزو، ڈر ہے
وہ چیر کر مرے زخم جگر کو دیکھتے ہیں
کسی سے کچھ نہیں مطلب کہ دیکھنے والے
تمہاری آنکھ، تمہاری نظر کو دیکھتے ہیں
سکندر آئینہ اے داغ جامِ جم دیکھے
ہم اپنے خسرو والا گھر کو دیکھتے ہیں