جانے، کون رہزن ہیں! جانے، کون رہبر ہیں
گرد گرد چہرے ہیں، آئینے مکدّر ہیں
مجھ کو جبر لفظوں کا، بولنے نہیں دیتا
ورنہ جتنے صحرا ہیں، ریت کے سمندر ہیں
بیسویں صدی کیسا انقلاب لائی ہے
کوہ پر ببولیں ہیں، دشت میں صنوبر ہیں
جب سے ایک چڑیا نے شیر کو پچھاڑا ہے
فاختہ کی آنکھوں میں قاتلوں کے تیور ہیں
دائیں بائیں میرے ساتھ اِک ہجوم رہتا ہے
دوستوں کی یادیں ہیں، دشمنوں کے لشکر ہیں
سوُئے جسم و جاں دیکھوں، یا میں یہ سماں دیکھوں
پھوُل پھوُل ہاتھوں میں کیسے کیسے پتّھر ہیں
بید زن کا لہجہ کچھ نرم پڑ گیا، ورنہ
مالک اب بھی مالک ہیں، چاکر اب بھی چاکر ہیں
سوت پہنے بیٹھے ہیں یہ جو فرشِ مر مر پر
نام کے قلندر ہیں، بخت کے سکندر ہیں
صبر کیوں دلاتے ہو، ضبط کیوں سکھاتے ہو
مُجھ کو کتنی صَدیوں کے یہ سبق تو ازبر ہیں
زندگی تھی جنّت بھی، زندگی تھی دوزخ بھی
داورا! یہ انساں کے دیکھے بھالے منظر ہیں
کرب میرے شعروں کا، انبساطِ فردا ہے
اشک جو ہیں آنکھوں میں، سیپیوں میں گوہر ہیں