بھیانک رات تھی دریا چڑھا تھا/rafiq sandeelvi
بھیانک رات تھی دریا چڑھا تھا
مگر میں تیری کشتی کھے رہا تھا
نگاہیں دھند میں ڈوبی ہوئی تھیں
کہاسا جسم پر چھایا ہوا تھا
میں اندھا یاتری بوڑھا تھا لیکن
وہ تبت کا پہاڑی سلسلہ تھا
محبت پھر ہماری جاگ اٹھی تھی
پلوں کے نیچے پانی آ گیا تھا
لہو میں چھتریاں کھلنے لگی تھیں
میں اپنی چھاؤں میں سستا رہا تھا
رفیق سندیلوی