تو پھر یہ طے ہواتھا
ہم زمیں سیراب کردیں گے
کہانی نا مکمل تھی مگر پھر بھی ہمیں رکھنا تھااپنی خاک سے لکھی عبارت کا کوئی عنوان بھی آخر
ہمیں صبحوں کے خوابیدہ تبسم کو نئی تقدیس کے شفاف رنگوں سے بدلنا تھا
ہمیں معتوب لہجوںمیں زباں کی لکنتوں کے ذائقے تحلیل ہونے کی اذیت سے نکلنا تھا
ہمیں بے نور لفظوں کے شکستہ دائروں میں رنگ بھرنے تھے
ہمیں خاکستری پگڈنڈیوں پر دیر تک ہمراہ چلنا تھا
کہیں گہرا سمندر تھا،کہیں بے پیرہن موجیں
ہوا کی نغمگی اورآسماں کی نیلگوں وسعت
ہمیں خوابوں کی سیڑھی سے اتر کر دھوپ کی چادر پہ پھیلی گرد کی ساری تہیں تاراج کرنی تھیں
ہمیں بے رنگ تمثیلوں کے میلے جسم پرتدبیر کا ملبوس رکھنا تھا
گماں اور دھیان کے موہوم رستوں پر تیقن کی لکیریں کھینچ کر اک عہد کو تخلیق کرنا تھا
پرانے فلسفوں کی نا مکمل آگہی پر روح کے زرخیز وجدانی تصور نقش تھے لیکن
ہمیں اپنی زبوں حالی کے تاریخی مزاروں پر لگے کتبے مٹانے تھے
خود اپنے گم شدہ نسلی تفاخر کی پرا نی قبر پر رکھے طلسمی عنکبوتی تار بھی معدوم کرنے تھے
پرانے عنکبوتی تار جن کی دھول میںاب تک
سزائیں بانٹتے منصف مکافاتِ عمل کی راکھ چنتے ہیں
قبیحانہ مراتب کی سزائیں کاٹتے تاریخ کے بے رنگ صفحوں پر
ابھی تک درج ہو شاید
ہمیں کوہِ ملامت سے اتر کر بستیاں آباد کرنی تھیں
محبت کی فصیلیں رنج سے آزاد کرنی تھیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راجہ اسحٰق
Verses