Verses
چاند کو زنجیر دیکھو کرنے چلا ہوں
ذات کا فقیر میں کیا کرنے چلا ہوں
لہو کو اپنی مٹھیوں میں بھرنے چلا ہوں
گلاب کو اسیر جو میں کرنے چلا ہوں
بلبل کو عقابوں کی نظر کرنے چلا ہوں
مجنوں ہوں میں پتھروں سے لڑنے چلا ہوں
آنکھوں پہ جام کے الزام دھرنے چلا ہوں
ساقی شراب کو حرام کرنے چلا ہوں
محبت کے شہر میں قیام کرنے چلا ہوں
دامن میں رتجگوں کے خار بھرنے چلا ہوں
یادوں کی آر دل میں یار گڑنے چلا ہوں
عشق ہوں میں سوئے دار بڑھنے چلا ہوں
ہوں داغ جدائی کا کہاں دھلنے چلا ہوں
رنگریز سے بے سود کہاں بھڑنے چلا ہوں
رستے کی خاک ہوں فلک کو بڑھنے چلا ہوں
جوہڑ کا ہی سہی کنول تو بننے چلا ہوں
ظلمت کے اندھیروں کو زیر کرنے چلا ہوں
بن کے امید کا دیا میں جلنے چلا ہوں
خلق ہوں خالق کو اله کرنے چلا ہوں
پتھر ہوں تو پتھر کو خدا کرنے چلا ہوں
Topics