اک نظر سوئے بام کر چلئے
اک نظر سوئے بام کر چلئے
چلتے چلتے سلام کر چلئے
گردشِ وقت سے نکل کے ذرا
شرکتِ دورِ جام کر چلئے
ہوش کی دُھوپ جی جلاتی ہے
خم کے سائے میں شام کر چلئے
کیوں نہ ایامِ عشرتِ فانی
مہ جبینوں کے نام کر چلئے
عشق کے راستے ہیں ناہموار
اب ذرا مجھ کو تھام کر چلئے
کاروبارِ وفا چلانے کو
رسمِ وحشت کو عام کر چلئے
کچھ تو نام و نشاں رہے اختر
کچھ تو دنیا میں کام کر چلئے