وہ جس سے ہی زندہ تھی کبھی محفلیں اپنی
وہ جس سے ہی زندہ تھی کبھی محفلیں اپنی
وہ خوش ہے بہت غیر کی محفل کو سجاکر
میں جس کی آنکھ میں کبھی مقیم تھا وہ شخص
گزرا میرے قریب سے تو آنکھ بچا کر
وہ جن کی تجوری میں ہم نے راز تھے رکھنے
نکلے بھکاری وہ مرے لفظوں کے سراسر
رہنے سے میری گھات میں حاصل نہیں کچھ بھی
ہے ہمت تو آجاؤ میرے قد کےبرابر
خاموشیوں کے ہنر لب-ے-بام سجاکر
عامی کہے ارباب تو خاموش رہا کر
درد محبت ہے تو پھر انساں کے کام آ
یوں میخانہ میں بیٹھ کر اس کا ضیاں نہ کر
ہے جھوٹ کو جینا بہت مشکل میرے ہمدم
سچ کہہ بھی جاؤ آج میرے پاس تم آکر
کوئی اور ہے جو سیکھتا ہے مدرسے جاکر
ہم نے تو سیکھی شائری ہے دل کو جلاکر