لہو میں زہر ملانے کی کیا ضرورت تھی
لہو میں زہر ملانے کی کیا ضرورت تھی
لگا کے آگ بجھانے کی کیا ضرورت تھی
اے سرِ راہِ گزر چھوڑ کے جانے والے
اِس قدر ٹوٹ کے چاہنے کی کیا ضرورت تھی
میں روشنی میں تمہیں دیکھنے کا شائق تھا
شبِ دیجور میں آنے کی کیا ضرورت تھی
ہیرے موتی تو سمندر میں بھلے لگتے ہیں!
اَشک آنکھوں سے گرانے کی کیا ضرورت تھی
مجھ کو صحرا کی رنگینی ہی بہت تھی صاحب
درد کے پھول کھلانے کی کیا ضرورت تھی
شعاع عشق میں چلنے کے فن سے واقف ہوں
بجھے چراغ جلانے کی کیا ضرورت تھی
فصیلِ شہر پہ عامی اُسی نے لکھا ہے!
حروفِ عشق مٹانے کی کیا ضرورت تھی