ہچکیاں آرہی ہیں پھر مُجھ کو
ہچکیاں آرہی ہیںپھر مُجھ کو
کمبخت کو کوئی ضرورت ہے
ندیم جاوید عثمانی
ندیم جاوید عُثمانی
ہچکیاں آرہی ہیںپھر مُجھ کو
کمبخت کو کوئی ضرورت ہے
ندیم جاوید عثمانی
ایک شے دے گا فیصلہ کرلو
عشق لوگے ، یا سکوں؟
ندیم جاوید عثمانی
تُم کو اپنی مثال دیتا ہوں
عشق زندہ بھی چھوڑدیتاہے
ندیم جاوید عثمانی
موت سے ہم بستری کرکے
زندگی روز نکھر جاتی ہے
ندیم جاوید عثمانی
ایک نشانی یہ بھی ہے قیامت کی
میں سُدھر جاؤں گا ، تُم سُدھر جاؤگی
قسم کھا کر کروں گا پوری میں
کروگی وعدہ تُم ، اُسے نبھاؤ گی
میں کہوں گا کب کا بُھول گیا
تُم کہو گی ، کہ بُھول جاؤں گی
’ندیم جاوید عثمانی‘
تیری سُلجھی ہوئی زُلف کی مانند
زندگی کس قدر ہے پیچیدہ
ندیم جاوید عثمانی
کسی عامل کا پتا بتاؤ مُجھے
اُس کی آنکھوں نے کردیا جادو
ندیم جاوید عثمانی
کِتنا مُشکل ہے منانا اُس کا
ہائے وہ شخص جو رُوٹھا بھی نہ ہو
تو بھید بتادے مِٹی کا
مرے مِٹی ہونے سے پہلے
میں کب سے بیٹھا سبق یادکئیے
تو سُن لے چُھٹی ہونے سےپہلے
کیا بھید تھا خالی لانےمیں؟
کیا بھید ہےخالی لے جانے میں؟
یہ راز عیاں کردے مُجھ پر
بند مُٹھی ہونے سے پہلے
توبھید بتادےمِٹی کا
مرے مِٹی ہونے سے پہلے!
’ندیم جاویدعُثمانی‘
Theme by Danetsoft and Danang Probo Sayekti inspired by Maksimer