امانت
اتنی قربت اور ایسی تنہائی
کتنی صبر آزما یہ خلوت ہے
پیش قدمی کو جی و تو چاہتا ہے
بس یہی سوچ روک لیتی ہے
تو کسی اور کی امانت ہے
اعتبار ساجد
اتنی قربت اور ایسی تنہائی
کتنی صبر آزما یہ خلوت ہے
پیش قدمی کو جی و تو چاہتا ہے
بس یہی سوچ روک لیتی ہے
تو کسی اور کی امانت ہے
ابھی آگ پوری جلی نہیں، ابھی شعلے اونچے اٹھے نہیں
سو کہاں کا ہوں میں غزل خواں مرے خال و خد بھی بنے نہیں
ابھی سینہ زور نہیں ہوا، مرے دل کے غم کا معاملہ
کوئی گہرا درد نہیں ملا ابھی ایسے چرکے لگے نہیں
اس سیل نور کی نسبتوں سے مرے دریچہ دل میں آ
مرے طاق چو ں میں ہے درشنی ابھی یہ چراغ بجھے نہیں
نہ مرے خیال کی انجمن نہ مرے مزاج کی شاعری
سو قیام کرتا میں کس جگہ مرے لوگ مجھ کو ملے نہیں
مری شہرتوں کے جو داغ ہیں مری محنتوں کے یہ باغ ہیں
یہ متاع و مال شک تگا ں ہیں، زکوٰۃ میں تو ملے نہیں
ابھی بیچ میں ہے یہ ماجرا سورہے گا جاری یہ سلسلہ
کہ بساط حرف و خیال پر ابھی پورے مہرے سجے نہیں
تمہارے بعد اس دل کا کھنڈر اچھا نہیں لگتا
جہاں رونق نہیں ہوتی وہ گھر اچھا نہیں لگتا
نیا اک ہم سفر چاہوں تو آسانی سے مل جائے
مگر مجھ کو یہ اندازِ سفر اچھا نہیں لگتا
کھلی چھت پر بھی جاکر چاند سے کچھ گفتگو کر لو
غزل کہنا پسِ دیوار و در اچھا نہیں لگتا
مسلسل گفتگو بھی اپنی وحشت کو بڑھاتی ہے
مسلسل چپ بھی کوئی ہسفر اچھا نہیں لگتا
مصور، پینٹنگ اچھی ہے لیکن کیا کہا جائے
شجر ہم کو تو بے برگ و ثمر اچھا نہیں لگتا
خدو خال و قدو قامت بظاہر پہلے جیسے ہیں
وہ جیسا پہلے تھا اب اس قدر اچھا نہیں لگتا
اندھیری رات ٹھکانے لگا کے آتے ہیں
چلو کہ اپنی صبح کو جگا کے آتے ہیں
سبھی جو مان رھے ہیں، بہت اندھیرا ھے
چراغ جوڑ کے سورج بنا کے آتے ہیں
ہجومِ شہر پہ سکتہ کہ پہل کون کرے
صلیبِ شہر کو آؤ سجا کے آتے ہیں
یہ رات روز جو ہم سے خراج مانگے ھے
ہزار سر کا چڑھاوا، چڑھا کے آتے ہیں
نہیں ھے کچھ بھی بچا اب، بجز یہ زنجیریں
اُٹھو یہ مال و متاع بھی، لٹا کے آتے ہیں
ஜ۩۞۩ஜ اِبنِ اُمید ஜ۩۞۩ஜ
http://www.ibn-e-Umeed.com/
ہر شام اس سے ملنے کی عادت سی ہو گئی
پھر رفتہ رفتہ اس سے محبت سی ہو گئی
شاید یہ تازہ تازہ جدائی کا تھا اثر
ہر شکل یک بیک تری صورت سی ہو گئی
اک نام جھلملانے لگا دل کے طاق پر
اک یاد جیسے باعثِ راحت سی ہو گئی
خود کو سجا سنوار کے رکھنے کا شوق تھا
پھر اپنے آپ سے مجھے وحشت سی ہو گئی
میں نے کوئی بیانِ صفائی نہیں دیا
بس چپ رہا تو خود ہی وضاحت سی ہو گئی
البم میں کوئی چھوڑ گیا اپنے آپ کو
اس طرح غائبانہ رفاقت سی ہو گئی
ہم اپنے آپ سے اتنی مروّ ت کر ہی لیتے ہیں
کبھی تنہائی میں خود کو ملامت کرہی لیتے ہیں
انہیں الزام کیا دیں جن کے زہر آلود ہیں لہجے
کہیں تھوڑی بہت ہم بھی غیبت کر ہی لیتے ہیں
کبھی تیشہ بہ کف ہو کر، کبھی خامہ بہ کف ہو کر
جو کرنا ہو ہمیں حسب ضرورت کر ہی لیتے ہیں
کوئی ٹوٹا ہوا دل جوڑ دیتے ہیں محبت سے
نمازی تو نہیں لیکن عبادت کر ہی لیتے ہیں
دلوں میں یوں اگر اک دوسرے سے پیار بڑھتا ہے
چلو ،اک دن بچھڑ جانے کی ہمت کر ہی لیتے ہیں
ہم بھی شکستہ دل ہیں پریشان تم بھی ہو
اندر سے ریزہ ریزہ میری جان تم بھی ہو
ہم بھی ہیں ایک اجڑے ہوئے شہر کی طرح
آنکھیں بتا رہی ہیں کہ ویران تم بھی ہو
درپیش ہے ہمیں بھی کڑی دھوپ کا سفر
سائے کی آرزو میں پریشان تم بھی ہو
ہم بھی خزاں کی شام کا آنگن ہیں،بے چراغ
بیلیں ہیں جس کی زرد وہ دالان تم بھی ہو
جیسے کسی خیال کا سایہ ہیں دو وجود
ہم بھی اگر قیاس ہیں، امکان تم بھی ہو
مل جائیں ہم تو کیسا سہانا سفر کٹے
گھائل ہیں ہم بھی، سوختہ سامان تم بھی ہو
رنجش کوئی رکھتا ہے تو پھر بات بھی سن لے
وہ مجھ سے ذرا صورتِ حالات بھی سن لے
دھڑکن کی زباں سے میں بتاؤں گا کسی دن
کیا اس کے لیے ہیں مرے جذبات بھی سن لے
کس طرح سے رسوائی گوارا ہوئی ہم کو
جو دل نے سہے پیار کے صدمات بھی سن لے
اس پھول سے مہکے جو مری شام کا آنگن
وہ اپنی کہے، میرے خیالات بھی سن لے
تو برف کی وادی کا مکیں ہے، کسی لمحے
شعلوں کی طرح ہیں مرے دن رات بھی، سن لے
اس دل نے تیرے بعد محبت بھی نہیں کی
حد یہ کہ دھڑکنے کی جسارت بھی نہیں کی
تعبیر کا اعزاز ہوا ہے اسے حاصل
جس نے میرےخوابوں میں شراکت بھی نہیں کی
الفت تو بڑی بات ہے ہم سے تو سر ِشہر
لوگوں نے کبھی ڈھنگ سے نفرت بھی نہیں کی
آدابِ سفر اب وہ سکھاتے ہیں جنہوں نے
دو چار قدم طے یہ مسافت بھی نہیں کی
کیا اپنی صفائی میں بیان دیتے کہ ہم نے
نہ کردہ گناہ کی وضاحت بھی نہیں کی
خاموش تماشائی کی مانند سرِ بزم
سو زخم سہے دل پہ شکایت بھی نہیں کی
اس گھر کے سبھی لوگ مجھے چھوڑنے آئے
دہلیز تلک اس نے یہ زحمت بھی نہیں کی
اس نے بھی غلاموں کی صفوں میں ہمیں رکھا
اس دل پہ کبھی جس نے حکومت بھی نہیں کی
صحرا کو گلزار بناتی رہتی ہیں
اپنی سوچیں پھُول کھلاتی رہتی ہیں
گونجتے رہتے ہیں دل کے در و دیوار
تیری یادیں آتی جاتی رہتی ہیں
جھُکے ہوئے سر والی بہوئیں مٹی پر
نقش بناتی‘حرف مٹاتی رہتی ہیں
سُوکھتی بیلوں والے ان دالانوں میں
شامیں کن کا سوگ مناتی رہتی ہیں
ساجد ان ویران گلی کوچوں سے اب
رونے کی آوازیں آتی رہتی ہیں
Theme by Danetsoft and Danang Probo Sayekti inspired by Maksimer