ادھ کھلی آنکھوں میں ٹھہری منظروں کی آرزو
ادھ کھلی آنکھوں میں ٹھہری منظروں کی آرزو
اندھے رستے کر رہے ہیں منزلوں کی آرزو
توڑ کر مٹی میری دوبارہ کیوں گوندھی گئی
کر رہا ہے یہ جہان کن صورتوں کی آرزو
آسماں پر ابر کا ہلکا سا بھی ٹکڑا نہیں
خشک مٹی کر رہی ہے بارشوں کی آرزو
پھر میرا ذوقِ تخیل بھی مجسم ہو گیا
پھر ہوئی ذوقِ سفر کو قافلوں کی آرزو
اک عجب منظر میری پیشِ نظر ہے آج کل
پیار کی دہلیز پر ہے نفرتوں کی آرزو
جب زمیں و آسماں آپس میں مل سکتے نہیں
کر رہی ہے خاکِ پا کیوں رفعتوں کی آرزو
حلقۂ گرداب میں شہناز اک مدت سے ہے
دائروں کے باسیوں کو ساحلوں کی آرزو