جسے بھی دُھوپ بار آور لگی تھی
جسے بھی دُھوپ بار آور لگی تھی
اُسے اک بانجھ پرچھائیں ملی تھی
تھکن کوئی مجھے کیا رنج دیتی
سڑک خود خستہ خستہ چل رہی تھی
میں اپنے آپ کو بھی چاہتا کیا
جہاں میں تھا وہاں بیگانگی تھی
عیاں تھی رہ گذر سے بھی جُدائی
مسافر کی جگہ دُھول اڑ رہی تھی
ظفر میں اِس لیے نغمہ سرا ہوں
مری ایجاد رونے سے ہوئی تھی