چاند کو زنجیر دیکھو کرنے چلا ہوں.
چاند کو زنجیر دیکھو کرنے چلا ہوں
ذات کا فقیر میں کیا کرنے چلا ہوں
لہو کو اپنی مٹھیوں میں بھرنے چلا ہوں
گلاب کو اسیر جو میں کرنے چلا ہوں
بلبل کو عقابوں کی نظر کرنے چلا ہوں
مجنوں ہوں میں پتھروں سے لڑنے چلا ہوں
آنکھوں پہ جام کے الزام دھرنے چلا ہوں
ساقی شراب کو حرام کرنے چلا ہوں
محبت کے شہر میں قیام کرنے چلا ہوں
دامن میں رتجگوں کے خار بھرنے چلا ہوں
یادوں کی آر دل میں یار گڑنے چلا ہوں
عشق ہوں میں سوئے دار بڑھنے چلا ہوں
ہوں داغ جدائی کا کہاں دھلنے چلا ہوں
رنگریز سے بے سود کہاں بھڑنے چلا ہوں
رستے کی خاک ہوں فلک کو بڑھنے چلا ہوں
جوہڑ کا ہی سہی کنول تو بننے چلا ہوں
ظلمت کے اندھیروں کو زیر کرنے چلا ہوں
بن کے امید کا دیا میں جلنے چلا ہوں
خلق ہوں خالق کو اله کرنے چلا ہوں
پتھر ہوں تو پتھر کو خدا کرنے چلا ہوں